ترا اقرار کرنا بھی تو کچھ انکار جیسا ہے |
یہ کیسا پیار ہے تیرا جو کچھ کچھ پیار جیسا ہے |
ترے ملنے سے بھی تجھ سے مرا ملنا نہیں ہوتا |
کہ تیرا بولنا مجھ سے عدم گفتار جیسا ہے |
کچھ اس کو نام تو دے جو مرے تو ساتھ رہتا ہے |
کہ ہے یہ رسمِ دنیا یا کوئی بیوپار جیسا ہے |
نہ ہو تو ساتھ میرے تو جہاں کس کام کا میرے |
ہر ایسا جیتنا میرا تو بھی اک ہار جیسا ہے |
تم آ کے پوچھ لو اک بار احوالِ مریضاں بھی |
تو ہے جس کا مکیں وہ دل مرا بیمار جیسا ہے |
ہمایوں تیرے جذبوں کی کوئی وقعت نہیں ہے اب |
ترا چلنا وفاؤں پر یونہی بیکار جیسا ہے |
ہمایوں |
معلومات