خفا جو مجھ سے تھا کبھی پہ اب بلانا پڑا پھر |
وہ مجھ کو بھولا جو تھا خود مجھے ملانا پڑا پھر |
ہمارے میں یہ مزا جو کہ عشق میں کم ہوا سو |
منانے ان کو ہمیں اور بھی ستانا پڑا پھر |
جنازہ چاہت کا جو نکلا اور کویی نہ تھا ساتھ |
اسے کہ اپنے یہی ہاتھوں سے اٹھانا پڑا پھر |
یہ عاشقی میری یہ میرا حق بھی تم ہی ہو صنم |
جو حق ہے تو مجھ کو یہ حق بہت جتانا پڑا پھر |
یہ دل تمناؤں کی میت سے ہو آیا ابھی سو |
بہ ضابطہ خوں میں اسے یہاں نہا نا پڑا پھر |
بھلا یوں کب سکتے تھے ہم عبید اس کو کسی پل |
مگر سرِ دنیا اسے ہمیں بھلانا پڑا پھر |
معلومات