| شعور دے کے مجھے بے قرار کاہے کیا |
| نہ لوٹنا تھا اسے، انتظار کاہے کیا |
| جو ڈوبنے کا تمہیں اشتیاق ایسا تھا |
| تو ٹھاٹیں مارتا دریا ہی پار کاہے کیا |
| تمہارے وعدے فقط جھوٹ کا پلندہ ہیں |
| میں جانتا تھا مگر اعتبار کاہے کیا |
| سلوک اس نے روا جو رکھا، وہی رکھتے |
| گوارا کوئی جفا کوہسار کاہے کیا |
| میں اپنی خام خیالی میں مست رہتا تھا |
| عطائے فن سے مجھے زرنگار کاہے کیا |
| بسائی عشق کی بستی ترے بھروسے پر |
| اجاڑ کر یہ نگر، شرمسار کاہے کیا |
| رشیدؔ جس کی عقیدت سے تاج پوشی |
| اسی نے مُڑ کے مرا دل فگار کاہے کیا |
| رشِید حسرتؔ |
| ۲۴ مئی ۲۰۲۵۔ |
معلومات