نسیمِ شب نے چپکے سے ترانے گنگنائے ہیں
سحر کی نرم کرنوں نے نئے جلوے دکھائے ہیں
ترے قدموں کی آہٹ سے مہک اٹھے ہیں گلشن سب
بہاروں نے عقیدت سے ترے رستے بچھائے ہیں
فضا میں تیری خوشبو نے عجب جادو بکھیرے ہیں
گلابوں نے ترے لب سے نئے نغمے سنائے ہیں
تری زلفوں کی چھاؤں میں سحر بھی رات لگتی ہے
اسی باعث ہی پروانے ترے سایے میں آئے ہیں
تری نظر کی ضَو سے جگمگاتے ہیں یہ ویرانے
کہ ماہ و مہر نے تجھ سے ضیا کے رنگ پائے ہیں
تری پلکوں کی چھاؤں میں ٹھہر جاتا ہے موسم بھی
ہوائے صبح نے بھی گیت تیرے گنگنائے ہیں
تری آمد سے دل کے ساز نے نغمے سنائے ہیں
سحر کی بزم میں خوشبو کے جگنو جگمگائے ہیں
صبا کے نرم جھونکوں نے ترے قصے سنائے ہیں
ترے قدموں کی آہٹ سے چمن میں رنگ چھائے ہیں
خزاں کی شام بھی اب بن گئی ہے شامِ گل رنگیں
ترے قدموں کی آہٹ نے عجب منظر سجائے ہیں
تری نظر کی ضَو سے جگمگاتے ہیں یہ ویرانے
کہ ماہ و مہر نے تجھ سے ضیا کے رنگ پائے ہیں

0
6