| متّفق ہم اگر نہیں ہوتے |
| اتنے شیر و شکر نہیں ہوتے |
| جاں کی بازی لگانی پڑتی ہے |
| معرکے یونہی سر نہیں ہوتے |
| کارواں کب کا لٹ چکا ہوتا |
| ہم اگر باخبر نہیں ہوتے |
| خوبصورت نہ ہوتی منزل تو |
| راستے پرخطر نہیں ہوتے |
| سارے اشعار کس کے اچھّے ہیں |
| سارے قطرے گہر نہیں ہوتے |
| جانتے ہیں خودی کا جو مفہوم |
| خود سے وہ بے خبر نہیں ہوتے |
| وہ زیادہ ہی پھڑپھڑاتے ہیں |
| جن پرندوں کے پر نہیں ہوتے |
| خود غرض جو بھی پیڑ ہیں شاعر |
| اُن پہ میٹھے ثمر نہیں ہوتے |
معلومات