تیرے حُسن کی بہار، ماضی حال سے پرے
جیسے اپنی دوستی، ماہ و سال سے پرے
قدرتی اشارے سے ناطہ یہ ہے طے ہوا
یکتا اپنا رابطہ ہر مثال سے پرے
جس کسی پہ آئے دل اس کے سحر میں رہے
سوچ کی گرہ سے دور اور خیال سے پرے
میں فقیر و بے نوا اپنے آپ میں ہوں گم
کر نہ وہم ہوں ترے زلف جال سے پرے
کار و روزگار نے تن مرا جکڑ لیا
من میں ایک رند ہے، اس وبال سے پرے
ٹوٹے دل میں بند ہیں گنج سب وفاؤں کے
درہموں سے دُور دُور اور ریال سے پرے
خاکسار و عاجز و دل فگار نا سہی
ہوں مگر میں بے غرض تیرے مال سے پرے

0
121