| آرزوِ سحر میں رات بتائی میں نے |
| شمع کئی بار جلا کے بجھائی میں نے |
| جب بھی خیالِ رقیباں نے کیا بے کل مجھے |
| دشتِ تخیل کو آواز لگائی میں نے |
| لوٹی پریشاں سی میری صدا کی بازگشت |
| اپنی کہانی یو ں خود کو ہی سنائی میں نے |
| میری یہ افلاس پھر سے نہ لے ڈوبے مجھے |
| حالتِ دامن دریدہ تھی چھپائی میں نے |
| خون جگر سے کیا آباد سخن دانی کو |
| شاعری تو دیکھ محفل کیا سجائی میں نے |
| برلبِ ساغر پہ تھی تشنگی جو خیمہ زن |
| اشکو ں سے دل خستہ کی پیاس بجھائی میں نے |
معلومات