ترے آنے کا گماں رہتا ہے
دل زیرِ امتحاں رہتا ہے
ترے قدموں کی آہٹ پر اکثر
مرا ہر لمحہ دھیاں رہتا ہے
جب تو نہیں ہوتا تو مجھ میں
کسی ماتم کا سماں رہتا ہے
مجھے چھوڑ کے یوں جانے والے
بتا تو سہی اب کہاں رہتا ہے
جو مجھ کو ٹوٹ کے چاہتا تھا
مجھ سے کیوں بدگماں رہتا ہے
مری ان آنکھوں کے کناروں پر
ترے ہجر کا کارواں رہتا ہے
میں وہ اجڑا سا چمن ہوں ساغر
جس پر فصلِ خزاں رہتا ہے

0
84