| جانے کس دورِ فِتن کی رسم دہرائی گئی |
| عشق زادے کو قبائے خاک پہنائی گئی |
| اور کیا کارِ جنوں تھا رزم گاہے عشق میں |
| اک ہزیمت در بدر تھی ہم سے اپنائی گئی |
| ہجر کا موسم تھا سورج سات نیزے پہ تپاں |
| شاہ زادے کو حشیشِ دشت دکھلائی گئی |
| ہر نئی آواز پر شب خون ہی مارا گیا |
| ہر نئی پرواز کو زنجیر پہنائی گئی |
| ہجر کی سوغات تھی پہلی کہ رنگیں اشک تھے |
| چاندنی شب تھی لہو سے جیسے نہلائی گئی |
| گو بدن پر وقت کی تاریکیاں ہیں خیمہ زن |
| آنکھ سے کب قوت لیلائے بینائی گئی |
| رقص پھر کالی گھٹاؤں کا ہوا شیدؔا یہاں |
| سرخ چادر سر سے دوشیزہ کے سرکائی گئی |
| *علی شیدؔا* |
معلومات