الطافِ مصطفیٰ ہیں جگمگ سدا ہے جس سے
اک ذرہ ریگ کا بھی موتی بنا ہے جس سے
پوچھا گیا دہر کو تیری جو اصل کہہ دے
اس نے کہا تجلیٰ سب کچھ بنا ہے جس سے
فیضِ حبیبِ کرتا زیبا ہے یہ گلستاں
لولاک فرماں رب کا ڈنکا بجا ہے جس سے
بن کر دہر سوالی آتا ہے جن کے در پر
ان کی عطا عوامی سب کو ملا ہے جس سے
حاصل ہیں رونقیں جو خلقِ خدا کو ہر جا
یہ دان دلربا ہے ساری عطا ہے جس سے
ما کانَ اور یکوں ہے ادراکِ جانِ ما میں
داتا خدا ہے اس کا اُن کو ملا ہے جس سے
سالارِ انبیا ہی میثاق کے حسیں ہیں
محمود وہ ہے قرآں ہم نے سنا ہے جس سے

24