اتنے ستم پہ جاناں اک اور گناہ کیجیے
فرصت ملے تو میری جانب نگاہ کیجیے
تیرِ نظر سے پہلے سینے کو کیجے چھلنی
پھر حالِ دل بھی دیکھیے اور واہ واہ کیجیے
ان کی نگہہ کیوں اپنی حرکت سے کچھ خفا ہو
یوں بے سبب کیوں ثانی نامہ سیاہ کیجیے
الفت کے راستے میں پھر کیجیے پیش قدمی
اور اپنے نام تہمت پھر خواہ مخواہ کیجیے
خنجر بھی کھاتے رہیے نشتر بھی سہتے رہیے
جب ہو گئے اسی کے پھر یوں نہ آہ کیجیے
اچھا ہے ان کی یادوں میں بحرِ خوں رواں ہو
بہتر ہے اپنے دل کو جتنا تباہ کیجیے
آنکھیں ہوں قید خانہ بازارِ مصر دل ہو
ہاں ہاں برائے یوسف رگ رگ کو چاہ کیجیے

0
18