کیا بیر ہے بتا تجھے میرے کلام سے
کیوں تو گریز کرتا ہے میرے سلام سے
تو تو مجھے سمجھتا ہے بارِ گراں مگر
نخرے ترے اٹھاتی ہوں میں اہتمام سے
اس رہ گزر سے فارحہؔ اس کا گزر نہیں
کیوں اس کے انتظار میں بیٹھی ہو شام سے
شکرِ خدا کہ ہم کو میسر ہے اس کی دید
ہم روز اپنے یار کو تکتے ہیں بام سے
خلوت پسند ہوگیا اک خوش مزاج شخص
رکھتا ہے کام اب وہ بس اپنے ہی کام سے
مجھ سنگ دل سے عشق جتانے کو آئے ہو
یہ بات ہے اگر تو گئے تم بھی کام سے
تسکینِ دل ہے عشقِ حقیقی میں فارحہؔ
بہتر ہے توڑ ڈالیے رشتہ حرام سے

12