| دِل فِدا ہو گیا نَظاروں پر |
| حُسن اُترا ہے کیا بہاروں پر |
| ہم مُسافر ہیں ساحلوں کے یہاں |
| ہم کو ڈھونڈا کرو کِناروں پر |
| اُس بلندی پہ آ گئے ہیں ہم |
| دسترس ہم کو ہے ستاروں پر |
| کون ہے جو مُجھے پُکارتا ہے |
| خوف ہی خوف ہے چناروں پر |
| وقت نے چال ہی چلی ایسی |
| درد مِلتے ہیں رہگزاروں پر |
| لفظ چُبھتے ہیں تیرے کانوں میں |
| دِل مرا رکھ دیا ہے آروں پر |
| بُھول بیٹھے ہیں مُسکرانا بھی |
| رحم کر اپنے غم کے ماروں پر |
| مانؔی اپنے مزاج کا مالِک |
| کیوں چلے گا ترے اشاروں پر |
معلومات