شب بسر مجھ میں ہوگئی شاید
روشنی تھی جو کھو گئی شاید
جاگنے لگ گئیں مری آنکھیں
نیند پلکوں پہ سوگئی شاید
کھل اٹھا ہے دھنک کا پیراہن
دھوپ برسات دھو گئی شاید
کاٹنی پھر ہو فصلِ تنہائی
پھر وہی بھیج بو گئی شاید
خود کو ہلکا ہوا سا لگتا ہوں
زندگی بوجھ ڈھو گئی شاید
کوئی جگنو کہاں شب ہجراں
اب دیے کی بھی لو گئی شاید
یار شؔیدا تمہاری پیشانی
چومنے دشت کو گئی شاید

0
5