| خوشی سے غم ذیادہ کر لیا ہے |
| ہؤا جو استفادہ کر لیا ہے |
| مرغن سے اسے پابندیاں تھیں |
| سو کھانا ہم نے سادہ کر لیا ہے |
| گناہوں کی سکت باقی نہیں، سو |
| مدینے کا ارادہ کر لیا ہے |
| سزا سے بچ گئے استاد کی ہم |
| کہ مشقوں کا اعادہ کر لیا ہے |
| کھلانی تھی اسے بچّوں کو روٹی |
| سو ماں نے کیسا وعدہ کر لیا ہے |
| وزارت کے مزے لوٹے ہیں ڈٹ کر |
| خیانتداری جادہ کر لیا ہے |
| ابھی باقی ہے اس کے دل میں تنگی |
| اگرچہ گھر کشادہ کر لیا ہے |
| اسے دکھ جھیلنا ہے جس نے، اپنی |
| شرافت کو لبادہ کر لیا ہے |
| جسے حسرتؔ بنایا شاہ زادہ |
| اسی نے ہی پیادہ کر لیا ہے |
| رشید حسرتؔ |
| مورخہ ۲۸ فروری ۲۰۲۵، (۱۲ بجکر ۱۸ منٹ پر) یہ غزل تکمیل کو پہنچی۔ |
معلومات