وہ سارے زخم ہی اپنا نشان چھوڑ گئے |
تمہارے بعد سبھی پاسبان چھوڑ گئے |
تمہارے ہوتے منافق بھی ساتھ تھے میرے |
جو تم گئے تو سبھی میری جان چھوڑ گئے |
میں بارشوں میں جنہیں ساتھ رکھا کرتا تھا |
مرے حبیب مرے سائبان، چھوڑ گئے |
نہ یہ جہان ملا اور نہ حشر تک پہنچے |
مرے رفیق مجھے درمیان چھوڑ گئے |
تمام دوست ستارے تھے آسماں تھا میں |
ستارے ٹوٹ گئے آسمان چھوڑ گئے |
میں ان کی حوصلہ مندی کی داد دیتا ہوں |
جو تیغ لے کے گئے اور میان چھوڑ گئے |
جو داستانِ محبت سنایا کرتے تھے |
وہ خود تو چلتے بنے داستان چھوڑ گئے |
تلاش رزق نے سب کچھ گنوا دیا ان کا |
مکین گاؤں کے کچے مکان چھوڑ گئے |
وہ خال خال ہی اب اپنے گیسُو کھولتی تھی |
سو چہچہاتے پرندے اُڑان چھوڑ گئے |
رقیب سوچتے ہیں قتل کس پہ ڈالیں ہم |
علی حماد خود اپنا بیان چھوڑ گئے |
معلومات