نہ جانے کب کہاں کس نے محبّت کر عطا ڈالی |
قیامت خیز لیکن زندگی اُس نے بَنا ڈالی |
کچھ اپنے پیار کا قصّہ سنایا دوستی میں جب |
ہمیں تو داستاں اس نے رقابت کی بتا ڈالی |
بدل ڈالا ہماری دوستی کو دشمنی میں ہے |
ہمارے بیچ میں شیطان نے جب بھی اَنا ڈالی |
ہم اس کے علم کے قائل ہوئے تھے جب سُنا اس کو |
عقیدت دل میں پر اخلاق نے ہے ، بے بہا ڈالی |
سنو وصلِ الٰہی کی گھڑی آتی ہے جب تم نے |
وفا کرتے ہوئے گردن انا کی ہو کٹا ڈالی |
فنا کرنا ہے اپنے آپ کو اس کی اطاعت میں |
رکاؤٹ جو بھی پھر رستے میں آئی وہ ہٹا ڈالی |
محبّت کا کریں طارق بہت دعویٰ نبھائیں کم |
بڑے پُر جوش تھے اب اس کی برسی بھی منا ڈالی |
معلومات