کہتے پردہ ہیں اور نہاں بھی نہیں
نام جلوہ ہے اور عیاں بھی نہیں
مجھ کو وسعت ہے اور بھی درکار
میری کٹیا یہ آسماں بھی نہیں
میرا ساغر یہ جام جم ہی نہیں
مجھے گفتار ساحباں بھی نہیں
دل کی بازی کہ ایسی بازی میں
گر نہیں سود تو زیاں بھی نہیں
اس لیے غم کا غم نہیں مجھ کو
میرا غم تو غمِ جہاں بھی نہیں
ہر طرف مردنی سی چھائی ہے
زندگی یاں نہیں وہاں بھی نہیں
ہم ہوئے خود شکار کہ ان کو
تیر تو کچھ نہیں کماں بھی نہیں
ذکر الفت کا چھوڑیے صاحب
اب تو نفرت کا کچھ گماں بھی نہیں
اپنی ہمت پہ منحصر ہے عشق
بے کنارہ ہے بے کراں بھی نہیں
نہ ہی سستی ہے اور گراں بھی نہیں
بولتے ہیں مگر زباں بھی نہیں

0
10