| سورج کا وقتِ شام سمندر میں ڈوبنا |
| اک خوابِ نا رسا کا مقدر میں ڈوبنا |
| آتا ہے دیکھنا تو بہت سوں کو یاں مگر |
| آتا نہیں ہے ایک کو منظر میں ڈوبنا |
| طوفان میں کہ جیسے کسی ایک ناؤ کا |
| دل کا ادائے ناز ستمگر میں ڈوبنا |
| اکثر گھروں کو سیل میں دیکھا ہے ڈوبتے |
| لیکن نہیں کہ سیل کا اک گھر میں ڈوبنا |
| سورج کا لال ہو کے، پریشان ہو کے دل |
| دونوں کا ایک ساتھ برابر میں ڈوبنا |
| آنکھوں میں رہ گئی تھی جو امید کی کرن |
| اس کا بھی ہائے اشک کے ساگر میں ڈوبنا |
| (ڈاکٹر دبیر عباس سید) |
معلومات