| جہانِ بے ثباتی میں رہیں گے اب قیامت تک |
| دلِ بے زار کا ماتم کریں گے اب قیامت تک |
| مکینِ خلد تھے لیکن ذرا سی بھول کر بیٹھے |
| ذرا سی بات کا بدلہ بھریں گے اب قیامت تک |
| ازل سے ہم مسافر تھے چلے تھے جس مسافت پر |
| خروجِ خلد سے لے کر رہیں گے اب قیامت تک |
| تغیر ہے تبدل ہے تبدل میں تمدن ہے |
| یہی قانون قدرت ہے سہیں گے اب قیامت تک |
| فلک کے رازداں جو تھے خودی کے ترجماں جو تھے |
| کسے معلوم تھا یارو جئیں گے اب قیامت تک |
| کسی کو فکرِ فردا ہے کسی کو غم زمانے کا |
| ہماری سوچ کے پہلو مریں گے اب قیامت تک |
| حقیقت مختصر یہ ہے خدا کے حکم سے ساغر |
| ستارے آسمانوں سے گریں گے اب قیامت تک |
معلومات