سانپ سپولے پالے ہم نے، پالے کالے ناگ بہت |
ان کے کارن جھیلے ہر پل، اجلے تن پر داگ بہت |
ہمدردی کے بول گوارا کب کر لیتا ہے کوئی |
جب تن کے نوچن کی باری، تب تو آئیں کاگ بہت |
ملنے کو تو مل جائے گی پر نا ہو گی من چاہی |
مجھ کو باس کہاں تجھ جیسی، تجھ کو مجھ سے باگ بہت |
پڑتے پڑتے پڑ گئیں آخر، بیچ دراڑیں اپنے بھی |
ٹھنڈک دینے والے کم تھے، بھڑکانے کو آگ بہت |
کاش ہمیں تعبیریں ملتیں، دیکھے تھے جو خواب حسیں |
سننے کو تو سنتے آئے خوشحالی کے راگ بہت |
اک دن ہم تم سو جائیں گے اوڑھ کے اپنی پوری نیند |
لیکن جو تُو اچھا چاہے، رب کی مان کے جاگ بہت |
کس نے اب تک پایا حسرتؔ علم تو ایک سمندر ہے |
ہم خود پر جو لاگو کر لیں تو ہم کو ہے جھاگ بہت |
رشِید حسرتؔ |
مورخہ ۱۰ اپریل ۲۰۲۵، صبح ساڑھے سات بجے یہ غزل تکمیل کو پہنچی |
معلومات