پر نور چشم ان کی گو آبگین ہے بہت
موسم بھی ویسے اب کہ یہ رنگین ہے بہت
آخر کیوں لڑتے ہیں انا میں یہ ملک بھلا
بس خون سے زمین یہ غمگین ہے بہت
تقریر کا اے واعظ اثر تیری کیا کہوں
مانا کہ تیری شوخ یہ تلقین ہے بہت
ا پنے یہ کالے دل میں تو نا گن چھپاۓ ہے
میری جاں خون خوار یہ شاہین ہے بہت
میرے یہ دل کو آج قرار آیا ہے خدا
کثرت سے پڑھ کی میں نے کہ یاسین ہے بہت
جانا ہے چاہ ہے اسے نت نۓ مقاموں سے
سو چلو ہم سفر کے یوں شوقین ہے بہت
وہ لڑکی ؟کون عشق کریگا بھی اس سے پر
وہ لڑکی تو عبید ؔ  کہ مسکین ہے بہت

12
150
سلام،
دو اصلاحات پہشِ خدمت ہیں:

1.
میرے یوں دل کو قرار آج آیا ہے خدا
کثرت سے پڑھ لی میں جو یاسین ہے بہت
2.

ہے نت نئے مقاموں کی یوں چاہ جب اسے
سو چل اے دل، سفر کا تو شوقین ہے بہت

نوٹ: اوپر دئیے پہلے شعر کے دوسرے مصرع میں تذکیر و تانیث کی اصلاح درکار ہے.
دوسرے شعر کا پہلا مصرع وزن سے خارج ہے جبکہ دوسرے مصرع میں واحد، جمع کی اصلاح مطلوب ہے...

0
یعنی:
یاسین اسم مؤنث ہے...
ہم کے ساتھ ہے نہیں آ سکتا...

سلام،
دو اصلاحات پہشِ خدمت ہیں:

1.
میرے یوں دل کو قرار آج آیا ہے خدا
کثرت سے پڑھ لی میں نے جو یاسین ہے بہت
2.

ہے نت نئے مقاموں کی یوں چاہ جب اسے
سو چل اے دل، سفر کا تو شوقین ہے بہت

نوٹ: اوپر دئیے پہلے شعر کے دوسرے مصرع میں تذکیر و تانیث کی اصلاح درکار ہے.
دوسرے شعر کا پہلا مصرع وزن سے خارج ہے جبکہ دوسرے مصرع میں واحد، جمع کی اصلاح مطلوب ہے...

یعنی:
یاسین اسم مؤنث ہے...
ہم کے ساتھ ہے نہیں آ سکتا...

یاسین ہم کے ساتھ ہے سے کیا مراد ہے ؟عزیز۔میرا قواعد بھی اتنا پختہ نہیں

0
چونکہ ہم لفظ تو استعمال نہیں ہوا یاسین کے ساتھ

0
کثرت سے پڑھ لی میں نے کہ یاسین ہے بہت
اس طرح وزن میں آرہا ہے بھائی سبز رنگ میں

0
سلام، دراصل مجھے اپنا پیام پہنچانے میں لغزش ہو گئی۔۔۔ اب وضاھت کر دیتا ہوں:
1۔ یاسین اسم مؤنث ہے...
اس سے میری مراد آپ کے مصرع میں یاسین کے استعمال بطورِ اسم مذکر سے تھی۔ جس کی آپ نے درستی کر دی ہے۔
2۔ ہم کے ساتھ ہے نہیں آ سکتا...
اس سے میری مراد آپ کے مصرع "سو چلو ہم سفر کے یوں شوقین ہے بہت" سے تھا۔ یہاں پر آپ نے "ہم" کے ساتھ "ہے" استعمال کیا ہے، اس لیے میں نے لکھا تھا کہ "ہم" کے ساتھ "ہے" نہیں آ سکتا۔ سو میں نے درج ذیل اصلاح تجویز کی تھی:
ہے نت نئے مقاموں کی یوں چاہ جب اسے
سو چل اے دل، سفر کا تو شوقین ہے بہت
باقی رہا آپ کا اصلاح شدہ مصرع "کثرت سے پڑھ لی میں نے کہ یاسین ہے بہت" بالکل وزن میں ہے۔۔۔ والسّلام

0
سلام، دراصل مجھے اپنا پیام پہنچانے میں لغزش ہو گئی۔۔۔ اب وضاحت کر دیتا ہوں:
1۔ یاسین اسم مؤنث ہے...
اس سے میری مراد آپ کے مصرع میں یاسین کے استعمال بطورِ اسم مذکر سے تھی۔ جس کی آپ نے درستی کر دی ہے۔
2۔ ہم کے ساتھ ہے نہیں آ سکتا...
اس سے میری مراد آپ کے مصرع "سو چلو ہم سفر کے یوں شوقین ہے بہت" سے تھا۔ یہاں پر آپ نے "ہم" کے ساتھ "ہے" استعمال کیا ہے، اس لیے میں نے لکھا تھا کہ "ہم" کے ساتھ "ہے" نہیں آ سکتا۔ سو میں نے درج ذیل اصلاح تجویز کی تھی:
ہے نت نئے مقاموں کی یوں چاہ جب اسے
سو چل اے دل، سفر کا تو شوقین ہے بہت
باقی رہا آپ کا اصلاح شدہ مصرع "کثرت سے پڑھ لی میں نے کہ یاسین ہے بہت" بالکل وزن میں ہے۔۔۔ والسّلام

0
اور،،، آپ کا یہ مصرع "جانا ہے چاہ ہے اسے نت نۓ مقاموں سے" وزن سے یوں خارج ہے کہ آپ نے نئے کی املا صحیح استعمال نہیں کی۔ اگر آپ اپنے مصرع کو یوں لکھیں یعنی "جانا ہے چاہ ہے اسے نت نئے مقاموں سے" تو یہ وزن سے خارج ہو جائے گا،،،
اگر مزید کچھ وضاحت درکار ہوئی تو ضرور بتائیے گا،،،

0
بھائ صحیح وزن میں مصرع یوں آیا
ًسو دل تو چلْ سفرکایوں شوقین ہے بہتً

0
نت نیے کی املا صحیح کردو بھائ,شکریہ بہت

0
بھائی یہ صحیح ہورہاہے کہ
(جانا ہے چاه ہے اُسے نت نو مقاموں سے)?
اس طرح وزن بھی برقرار ہے

0