پر نور چشم ان کی گو آبگین ہے بہت |
موسم بھی ویسے اب کہ یہ رنگین ہے بہت |
آخر کیوں لڑتے ہیں انا میں یہ ملک بھلا |
بس خون سے زمین یہ غمگین ہے بہت |
تقریر کا اے واعظ اثر تیری کیا کہوں |
مانا کہ تیری شوخ یہ تلقین ہے بہت |
ا پنے یہ کالے دل میں تو نا گن چھپاۓ ہے |
میری جاں خون خوار یہ شاہین ہے بہت |
میرے یہ دل کو آج قرار آیا ہے خدا |
کثرت سے پڑھ کی میں نے کہ یاسین ہے بہت |
جانا ہے چاہ ہے اسے نت نۓ مقاموں سے |
سو چلو ہم سفر کے یوں شوقین ہے بہت |
وہ لڑکی ؟کون عشق کریگا بھی اس سے پر |
وہ لڑکی تو عبید ؔ کہ مسکین ہے بہت |
معلومات