| ہم اذیت کے خرابے سے اٹھائیں آنسو |
| رات کاٹے تو چراغوں میں جلائیں آنسو |
| دھوپ سلگی ہے ابھی شعلۂ حدت باقی |
| پیاس جب ہوش میں آئے تو پلائیں آنسو |
| کوئے امکاں میں شناسا تو کوئی مل جاتا |
| ہجر زادے ہیں بھلا کس کو دکھائیں آنسو |
| زندگی نت نئے مصرف کے تقاضے تیرے |
| دو عدد آنکھوں سے ہم کتنا کمائیں آنسو |
| پھر وہی خواب لگے کانچ سا کوئی ٹوٹے |
| پھر تماشائے سرِ شام ستائیں آنسو |
| ہر کوئی شخص چھپائے ہے نمی پلکوں میں |
| کون اس شہر میں اب کن کے چرائیں آنسو |
| ہم ابھی غم کے سمندر میں پڑے ہیں شیؔدا |
| جادۂ دشت پہ آئیں تو لٹائیں آنسو |
معلومات