| گردِ غفلت اتار لیتے ہیں |
| خاک اپنی سنوار لیتے ہیں |
| تشنگی ہو حیات کا مسکن |
| دل کا دریا اُتار لیتے ہیں |
| غم سے سچی خوشی نکلتی ہے |
| دُکھ کو اتنا سنوار لیتے ہیں |
| نقدِِغم سونپتے رہے خود کو |
| اب خوشی کے ادھار لیتے ہیں |
| لوگ تو سایہ دار کہتے ہوئے |
| چِھین ہم سے بہار لیتے ہیں |
| کیوں تری زیست پر نچھاور ہوں |
| مر کے کچھ جاں نثار لیتے ہیں؟ |
| قہر فتراک میں رہا جس کے |
| اس سے واپس شکار لیتے ہیں |
معلومات