راستہ ہے کہاں تلک جائے
دیکھنا ہے کہ کب یہ تھک جائے
بھیڑ سے پوچھنا پتہ کیسا
ہم بھی جائیں جہاں سڑک جائے
تک رہا ہوں سکوتِ ہجراں میں
آنکھ میں اشک بھی کھٹک جائے
لمس رکھ لو ہماری میت پر
عین ممکن کہ دل دھڑک جائے
اوس ہے شب گزیدہ پلکوں پر
اپنے انداز سے سرک جائے
درد کو زیست کی دعائیں دو
زخم ہے شوق سے دمک جائے
بوجھ ہلکا کریں علی شّیدا
چشمِ نمناک ہے چھلک جائے

0
5