کونین، سخی در کی، ہر آن سوالی ہے
اس دانِ رسالت کی، کیا شان نرالی ہے
لے خلقِ خدا اُن سے، دیتا ہے خدا اُن کو
خیرات جو دیتے ہیں دو جگ میں مثالی ہے
صادق ہیں نبی سرور یہ کہتے ہیں دشمن بھی
کیا قول ہیں آقا کے کیا حسنِ مقالی ہے
گردوں میں جو گردش ہے سوغات ہے دلبر سے
اجرامِ فلق دیکھیں کس دان سے تھالی ہے
آفاقِ سماوی یوں کس حسن سے تاباں ہیں
ہیں خبریں کسی جا سے، جو فیض سے خالی ہے؟
دولہا ہیں وہ ہستی کے، جو شان ہیں گلشن کی
پھل دار انہی سے ہے، جو شجر کی ڈالی ہے
ہیں نورِ مبیں آقا، سرکار سخی سرور
ہے نور یہ دلبر سے، جو شفق میں لالی ہے
محمود! ضیا اُن سے اکنافِ دہر میں ہے
جبریل مَہَر دیکھیں کس در پہ سوالی ہے

0
6