جس سے دروازہ کھلا ہے معرفت کے نور کا |
پُر سکوں دنیا ، قیامِ امن کے منشور کا |
وہ کلامِ لم یزل اترا حرا میں اس طرح |
اک ستوں آیا نظر تھا آسماں تک نُور کا |
ہاتھ میں ساقی نے لا کر دو دئے شربت لذیذ |
زنجبیلی پائے گا ، جس نے پیا کافور کا |
روح کے بیمار اس میں پائیں گے آبِ حیات |
بحرِ عرفاں ہے کہ یہ بہتا ہے چشمہ نور کا |
وصل پا جانے کے بتلائے گئے ہیں اس میں راز |
اس سے پہلے یوں تو دکھلایا تھا جلوہ طور کا |
ہونے والا ہے جو مستقبل میں اس میں لکھ دیا |
ذکر ہے ماضی کی بھی کچھ داستاں مستور کا |
جب کبھی کرنا تھا مجھ کو فیصلہ جاؤں کدھر |
اِس نے دکھلایا ہے مجھ کو آئینہ دستور کا |
خود گواہی دے گا قرآں، طاق پر رکھا مجھے |
کب عمل مجھ پر تھا ، میرا حال تھا مہجور کا |
خود مسیحا ہے ، عصا موسٰی کا یا اس کو کہیں |
بخش دے یہ زندگی ہے ، رہنما معذور کا |
تم اگر چاہو تو کروا دے خدا سے گفتگو |
آج دکھلا دے تمہیں نظّارہ کوہِ طور کا |
خود بخود ہوتی محبّت ہے یہ کی جاتی نہیں |
عشق میں ہے لطف ، یہ رشتہ نہیں مجبور کا |
وہ جو پیتے ہیں انہیں ہم نے یہی کہتے سُنا |
جو اثر بیٹی کا ہے وہ کب ہوا انگور کا |
طارق آثارِ محبّت ، اس سے ہو جائیں عیاں |
جب لگے ہے راستہ بہتر ، دلِ مسرور کا |
معلومات