ہے انتظار کب سے چاہے دن ہو رات ہو |
وہ وقت آئے جب ترے ہاتھوں میں ہاتھ ہو |
ماضی میں جھانکنے دے مجھے تیز گامِ زیست |
شاید کہیں سلیٹ ہو تختی دوات ہو |
جس بد نصیب ماں کی کہیں جیب کٹ گئی |
ممکن ہے اسکی صرف یہی کائنات ہو |
تیرے بغیر زندگی ہے مَوت کے قریب |
کہ اس طرح کی مَوت نہ ایسی حیات ہو |
اے توسنِ حیات ذرا احتیاط سے |
شاید دوبارہ دن نہ چڑھے پھر نہ رات ہو |
دیکھے ہیں ذات پات کے ہنگامے فرش پر |
مجھ کو یقیں ہے حشر میں نا ایسی بات ہو |
اس ڈھب سے اس غریب نے کاٹی ہے زندگی |
جیسے منافقوں کے لئے پُل صراط ہو |
محمود بھی نہیں ہے نہ ہی غزنوی جلال |
اللہ کرے کہ اب نہ کہیں سومنات ہو |
ہو گا یقیناً حشر میں انصاف سب کے ساتھ |
بیٹھے ہیں اس امید پہ کچھ التفات ہو |
معلومات