| کوئی بیٹھا ہے الگ ہو کے، جُدائی کر کے |
| ہم چلے آئے بڑی دیر دُہائی کر کے |
| ہم کو آپس میں لڑاتے ہیں تماشے کے لِیئے |
| لُوٹ لیتے ہیں ہمیں ایک اِکائی کر کے |
| گھر میں پوچے کے لِیئے ہم نے رکھی تھی مائی |
| گھر سے بھاگی وہ کہِیں، گھر کی صفائی کر کے |
| ہم کو مُرسل کی غُلامی کا مزہ آیا ہے |
| رُتبہ پایا ہے اِسی در کی گدائی کر کے |
| تُم کو بیٹے کی کُھلے دِل سے مُبارک ہو مِیاں |
| لے کے آئے گا کِسی روز کمائی کر کے |
| شہر میں دُھول کا اُٹھتا ہُؤا طُوفان سا ہے |
| چھوڑ کر بیٹھے جو روڈوں کی کُھدائی کر کے |
| تیرے جلووں کا نہِیں کوئی یہاں قدر شناس |
| کیا مِلا تُجھ کو خُدا! جلوہ نُمائی کر کے |
| ساری بہنیں ہیں مگر دوست ہمیں چھوٹی ہے |
| گھر میں ہم اُس کو بُلاتے ہیں سبھائی کر کے |
| وہ جو اِک قید پرِندہ ہے بدن میں حسرتؔ |
| محوِ پرواز مگر دیکھو رِہائی کر کے |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات