| کون ڈرتا ہے بھلا اب ہجر کے آزار سے |
| خوف آتا ہے کسی کے" وعدۓ دیدار" سے |
| مجھ کو ڈر لگتا ہے اس کی عادتِ انکار سے |
| کوئی تو پوچھے مرے بارے میں میرے یار سے |
| عمر بھر کی دشمنی کو بھول جائیں گے تری |
| تم فقط اک بار ہم سے بات کر لو پیار سے |
| یار کی دہلیز سے اٹھ کر کہاں جائیں گے ہم |
| اس نے جب در سے اٹھایا لگ گئے دیوار سے |
| مجھ سے ملتے وقت ہوتا ہے اسے پاسِ حیا |
| سامنے میرے گلے ملتا ہے وہ اغیار سے |
| دسترس میں بس نہیں ہے اک ترے غم کا علاج |
| ورنہ لے آتے ہیں ہر شے آج کل بازار سے |
معلومات