دھڑکتا ہے اگر دل تو وہ پتھر ہو نہیں سکتا |
غلط کہتے ہیں پیار اس میں اُجاگر ہو نہیں سکتا |
اگر ماؤں سے بڑھ کر پیار کا دعوٰی کسی کو ہو |
محبّت میں کوئی اس کے برابر ہو نہیں سکتا |
جو صحبت میں رہے پھولوں کی خوشبو اس سے آتی ہے |
گلوں سے دُور رہ کر تُو معطّر ہو نہیں سکتا |
اگر اک بار تیرے پیار کی نظریں پڑیں مجھ پر |
تو کیونکر میں مقدّر کا سکندر ہو نہیں سکتا |
عمل کرتا نہیں واعظ اگر اپنی ہی باتوں پر |
یقیناً پھر تو وعظ اس کا مؤ ثّر ہو نہیں سکتا |
صدا اُس سے جو آتی ہےتو لے کر ساتھ جاتی ہے |
اُسے ملنا کسی صورت مؤخّر ہو نہیں سکتا |
عبث دعوٰی ہے اس کا آشنائی ہے اسے تجھ سے |
نہیں ہے معرفت جس کو قلندر ہو نہیں سکتا |
تجھے طارق ہزاروں لوگ سننے کو چلے آئے |
سنا موقع کوئی بہتر میسّر ہو نہیں سکتا |
معلومات