پروفیسر اسے کہیے تو اس کو مولوی کہیے
مگر اس بھیڑ میں کوئی ہے جس کو آدمی کہیے
وہ ثانی جس نے خوشیوں کا کبھی منہ تک نہ دیکھا تھا
مگر یہ اس کے لب پہ آج ہے کیسی خوشی کہیے
کوئی آساں نہیں حضرت ہمارے دور میں جینا
یہی وہ بے بسی ہے جس کو شاید آدمی کہیے
وہ ہے معصوم ادا ان کی کرے ہم سب کو جو گمرہ
ہمیں جو مار دیتی ہے اسے ہی نازکی کہیے
ہمیں کرنا ہے ثانی کل جو کچھ وہ آج ہی کریے
ہمیں جو آج کہنا ہے وہ بس اب اور ابھی کہیے

0
13