| ایک اُن کا سلام ہو جائے |
| دل کی حسرت تمام ہو جائے |
| گر میسر ہو جائے وہ مجھ کو |
| میرا اعلیٰ مقام ہو جائے |
| ساقی تیرے مے خانے کی ہو خیر |
| تو سبھی رندوں کا امام ہو جائے |
| بے قراری بہت ہے آج کی شب |
| تیری نظروں کا جام ہو جائے |
| جو پلٹ دے نقاب اپنا تو |
| تیرا ہر شخص پھر غلام ہو جائے |
| ان کی چشمِ کریمی کے صدقے |
| مدحتِ خیر الانام ہو جائے |
| ہر سو نفرت کے گھپ اندھیرے ہیں |
| روشنی کا اب انتظام ہو جائے |
| بعد مدت ملے ہو تم ساغر |
| پینے کا اہتمام ہو جائے |
معلومات