| ہماری ضِد ہے، انا بھی ہے، انتقام بھی ہے |
| سُہانی صُبح، مہکتی سی ایک شام بھی ہے |
| وگرنہ بزم سے کب کا اُٹھا دیئے جاتے |
| تبھی تو بیٹھے ہو شامل تُمہارا نام بھی ہے |
| بہارِ گلشنِ خُوش رنگ اب عُرُوج پہ ہے |
| خُوشی ہے ساتھ مِرے میرا خُوش خرام بھی ہے |
| لُٹا ہی بیٹھے گا اِک روز سب کمائی بھی |
| رکھی ہے منہ میں جو اِک چِیز بے لگام بھی ہے |
| سلِیقہ کیا ہے کہ طُوفانِ بد تمِیزی ہے |
| ارے بڑوں کا ادب، کوئی اِحترام بھی ہے؟ |
| کِیا ہُؤا ہے بہت اِہتمام مانتے ہیں |
| مگر بتاؤ کوئی اِنتظامِ جام بھی ہے؟ |
| رشِید بِیچ میں جو فاصلہ تھا ہے قائِم |
| مُحِیط صدیوں پہ، ہر چند چند گام بھی ہے |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات