| مجھ کو حاصل جو تیری محبت نہیں |
| مجھ کو پھر تو جہاں کی ضرورت نہیں |
| آرزو میں تری چل رہی زندگی |
| آرزو کے سوا یہ سلامت نہیں |
| گر سفر میں پڑے جو مصیبت کبھی |
| ہم سفر چھوڑ دوں یہ رفاقت نہیں |
| ساتھ تیرا میں چھوڑوں کسی کے لیے |
| دل لگی میں کہیں یہ روایت نہیں |
| گیت سارے میں لکھوں ترے واسطے |
| تو ہے گیتوں میں میرے فصاحت نہیں |
| میں جدا ہو کہ جی نہ سکوں گا کبھی |
| ہے محبت مری یہ بغاوت نہیں |
| تیرے ہاتھوں پہ لکھی لکیروں میں ہم |
| ہے حقیقت یہی یہ کہاوت نہیں |
معلومات