آپ دل سے کھیلے ہیں
ہم نے درد جھیلے ہیں
اب ٹھہر بھی عزرائیل
دو ہی دن تو کھیلے ہیں
دور ہو کہ دل میں اب
اور بھی جھمیلے ہیں
رہ کٹھن اگرچہ ہے
آگے میلے ٹھیلے ہیں
خلد کے مکاں کا دام
عشق کے دو دھیلے ہیں
تارے ہم سے گویا ہیں
کیسے ہم اکیلے ہیں​

8
518
زندگی کے مصرعے
نظرِ ثانی کیجے گا محترم!

0
یہ درست ہے۔ یہ غزل فاعلن مفاعلن پر ہی کہی گئی ہے۔

0
محترم! آپ نے غلط باندھا ہے۔
اس کی تقطیع پیش کریں۔

0
محترم سید ذیشان اصغر صاحب! کیا یہ تمام شعراء زندگی بھر ”مصرعے“ کا وزن غلط باندھتے رہے ہیں اور آپ وہ عظیم سخنور ہیں جنہوں نے پہلی بار ”مصرعے“ کو درست وزن پر باندھا ہے؟؟؟
رہنمائی فرمائیے گا۔

0
مصرعے پہ ان کے مصرعۂ قد کا گماں ہوا
اک طبقہ بیت کا طبقِ آسمان ہوا
منشی خیراتی لال شگفتہ

سنائے اس نے جب اشعار میرے
کئی مصرعے ہوئے گل بار میرے
شمع ظفر مہدی

چند مصرعے گڑھے غزل کہہ لی
اور خود کو بہت بڑا سمجھے
شبیر عالم احرام

بعد اک عمر کی خموشی کے
مصرعے سب زور دار نکلے ہیں
محمد یعقوب آسی

خبر نویس نہیں ہوں میں ایک شاعر ہوں
تمام مصرعے ہیں میرے نیا پرانا کیا
سوربھ شیکھر

ریشمی چوڑیاں ایسی کہ غزل کے مصرعے
یہ کھنکتا ہوا کنگن بھی غزل جیسا ہے
قیصر صدیقی

ایک مصرعے سے زیادہ تو نہیں بارِ وجود
تم پکارو گے تو ہر بار اٹھا لائیں گے
عطا تراب

زندگی بھر کی کمائی یہی مصرعے دو چار
اس کمائی پہ تو عزت نہیں ملنے والی
افتخار عارف

تم اپنے تصور سے بناتے ہو جو مصرعے
یہ ہم نے دیے تم کو خیالات جدیدی
منظر نقوی

کبھی کبھی تو مکمل غزل سے ملتا ہوں
سخن کے شہر میں مصرعے تلاش کرتے ہوئے
راکب مختار

چھپے ہوئے کوئی منظر مری نگاہ میں آ
اے کوئی ان کہے مصرعے مری زباں سے نکل
عزم الحسنین عزمی

مصرعے پہ ترے عارفؔ! مصرع جو ہوا چسپاں
خوشبو سی اتر آئی ہر اولیٰ و ثانی میں
عارف انصاری

کاغذ پہ کیسے ٹھہریں مصرعے مری غزل کے
لفظوں میں بہہ رہا ہے کورے گھڑے کا پانی
اسلم کولسری

غزل ہے کوئی تو میں بھی ہوں لازمی حصہ
کسی حیات کے مصرعے میں قافیہ میں ہوں
ذاکر خان ذاکر

ایک مصرعے کی طرح وہ تو اکیلا ہی رہا
جب بھی دیکھو گے اکیلا ہی دکھائی دے گا
صاحبہ شہریار

ایک مصرعے میں سنو وصل کا پورا قصہ
از عشا تا بہ سحر یار کو چوما چوما
قمر آسی

پہلے مصرعے میں تجھے سوچ لیا ہو جس نے
جانا پڑتا ہے اسے مصرعِ ثانی کی طرف
ابھیشیک شکلا

اس غزل پر آیتِ پیغمبری اتری ہے کیا
لوگ کہتے ہیں کہ سب مصرعے صحابی ہو گئے
عاطف کمال رانا

ایک مصرعے پر رکا تھا سلسلہ جو دیر سے
اس نے دیکھا مسکرا کر شعر پورا کر دیا
پروندر شوخ

گھر سے نکل کے شہر کے رستے کو گھورنا
پھر غم زدہ سی نظم کے مصرعے کو گھورنا
عمران راہب

کچھ میرؔ کے ابیات تھے، کچھ فیضؔ کے مصرعے
اک درد کا تھا جن میں بیاں، یاد رہے گا
ابن انشا

بتا کر ایک مصرع میں ندی سا حسن وہ تیرا
ملے پھر دوسرے مصرعے اسی دریا کنارے ہم
ہمانشو پانڈے

وہ لب ہیں کہ دو مصرعے اور دونوں برابر کے
زلفیں کہ دلِ شاعر پر چھائی ہوئی غزلیں
بشیر بدر

زمینِ سنگ سے گلہائے نغمہ کی توقع کیا
بڑے آسان مصرعے بھی بڑی مشکل سے نکلے ہیں
منفرد گورکھپوری

ایک ہی مصرعے میں دس دس بار دل بریاں ہوا
وہ غزل میں باندھ کر دیتے ہیں بریانی مجھے
سرفراز شاہد

در و دیوار ہیں میرے یہ غزل کے مصرعے
کیا سخن ور سے سخن ور کا پتہ پوچھتا ہے
راجیش ریڈی

مرا اک کاروبارِ جذبہ و الفاظ ہے اس سے
مرے جذبوں کو پگھلا کر وہ مصرعے ڈھال دیتا ہے
عبدالاحد ساز

میرے ہر مصرعے پہ اس نے وصل کا مصرعہ لگایا
سب ادھورے شعر شب بھر میں مکمل ہو گئے تھے
فرحت احساس

زخم گہرے کر رہی ہے ہر نئے مصرعے کی کاٹ
شعر کہنے سے بھی دل کا بوجھ کب ہلکا ہوا
صہبا اختر

جس کے اک ایک مصرعے میں رہتا تھا اس کا ذکر
عاجزؔ! وہ شعر اور تھے، وہ قافیے تھے اور
لئیق عاجزؔ

یہ شعر تو مجھ سے بیٹھے بیٹھے یوں ہی ہوئے ہیں، کہے نہیں ہیں
رضیؔ میں مصرعے کے ساتھ مصرع لگا رہا ہوں، بتا رہا ہوں
علی رضا رضی

مصرعے مصرعے میں مَیں اکیلا ہوں
شعر پورا کرو میں تنہاؔ ہوں
محمد جنید حسان تنہاؔ

بہت شکریہ میں سائٹ پر یہ وزن شامل کرتا ہوں۔

0
محترم سید ذیشان اصغر صاحب! سخت الفاظ کے استعمال پر معذرت۔
لفظ ”رَمَضان“ کو بھی سسٹم میں درست کیا جائے۔ اس کا صحیح وزن فعلات ہے۔ 1211
شکریہ!

فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
پھر نہیں آئیں گے ہم تیرے جہاں میں جاناں!
ہمیں سوگند ہے ماہِ رمضاں میں جاناں!

محمد جنید حسان تنہاؔ

0