اب تو انساں سے پتھر بھی ہم کلام ٹھہرے |
نئی دنیا میں نئے حادثات عام ٹھہرے |
یہاں جوبن میسر نہیں پھولوں کو بھی |
یہاں پاوں سے مسلنا جو سر عام ٹھہرے |
یہاں قانون نہیں ہے اندھیر نگری ہے |
یہاں اندھے میرے سرکار کے حکام ٹھہرے |
کل مسلماں تھے مگر کیوں ہوئے کافر وہ آج |
فتوی بازار میں بکنے سے ہی بدنام ٹھہرے |
میں ملا نہ سمجھتا ہوں خانقاہ والے |
میرے اسلاف تو تلوار سے امام ٹھہرے |
ہر گلی خون مسلماں سے ہوئی رنگ ہمراز |
میرے حاکم سبھی اغیار کے غلام ٹھہرے |
معلومات