| دل میں پیدا پھر ویرانی کرنی ہے |
| حالِ دگرگوں پر حیرانی کرنی ہے |
| سنگ دلی کو گل افشانی کرنی ہے |
| اہلِ محبت پر آسانی کرنی ہے |
| ان کی نگاہِ عفو و کرم ہے پھر تجھ پر |
| دل! تجھ کو کتنی نادانی کرنی ہے |
| شغلِ کد و کاوش اب تھوڑا ہو تبدیل |
| ہم کہ فرشتے ہیں، شیطانی کرنی ہے |
| ہم کو اس نے عرصہ دھوکے میں رکھا |
| دل سے بھی تھوڑی بیمانی کرنی ہے |
| مجھ کو تقدس کا بوسہ چاہے نہ ملے |
| اس کے آگے تو پیشانی کرنی ہے |
معلومات