چمک رہی ہے ستاروں میں کہکشاں اب تک
ترے خیال کی خوشبو ہے درمیاں اب تک
ہوا کے ساتھ گیا وقت بھی مگر دل میں
کہیں پہ باقی ہے یادوں کا کارواں اب تک
بچھڑ کے تُو نے بھی شاید یہ سوچ رکھا تھا
کہ مٹ ہی جائے گا دل سے مرا نشاں اب تک
یہ اور بات کہ میں مسکرا رہا ہوں مگر
ترے بغیر ادھورا ہے آسماں اب تک
بچھڑ کے تجھ سے بھی دل مطمئن نہیں رہتا
کوئی خلش سی ہے، کوئی ہے دُھواں اب تک
زمانہ بیت گیا، رنگ بھی بدل ڈالے
مگر وہ آنکھ میں ٹھہرا ہے اک سماں اب تک
میں اپنے زخم چھپانے میں کامیاب تو تھا
مگر یہ آنکھ چھپا سکتی ہے کہاں اب تک
یہ بھی عجب ہے کہ تیرے بغیر جیتے ہیں
یہ بھی حقیقت کہ دل ہے پریشاں اب تک
تمہارے بعد بھی دنیا سنور گئی لیکن
کہیں نہ کہیں ادھورا ہے ہر جہاں اب تک
یہ کس کے لمس کی گرمی بکھر گئی خالد
کہ دھڑکنوں میں ہے اک نرم سا گماں اب تک

0
8