| جب سے تمہارا چہرہ ہماری نظر میں ہے |
| تب سے یہ دل ہمارا تمہارے اثر میں ہے |
| تم مانگ کر تو دیکھو کہ سارا نکال دیں |
| جتنا بھی یار خون ہمارے جگر میں ہے |
| آواز دے رہے ہو وہ بھی دور سے مگر |
| کیسے بتاؤں تجھ کو کہ کشتی بھنور میں ہے |
| تیرے نصیب میں لکھی منزل قریب تھی |
| میرا نصیب ہے جو ابھی تک سفر میں ہے |
| آؤ بتاؤں تم کو میں الفت کا راز اب |
| سارے جہاں کی دوستو الفت بشر میں ہے |
| پہلے تو بچ گیا تھا میں وارِ حبیب سے |
| اب تو رقیب میرا بھی میری خبر میں ہے |
| شعلے بھڑک رہے ہیں جو ساغر کی لاش سے |
| لگتا ہے کوئی فتنہ ابھی تک جگر میں ہے |
معلومات