یار کے نگر ہم اُدَّھم کِیا نہیں کرتے
چاہے دُکھ جو مل جائے ہم گِلَہ نہیں کرتے
بے رخی تبسّم ہے پھر سے آج ہی جانب
اس طرح سے رنجوری تو دیا نہیں کرتے
بدنظر کا رہتا ہے خوف ہر گھڑی دلبر
اس لئے تو پنگھٹ پر ہاں مِلا نہیں کرتے
تم کو پیار ہی گرچہ بے شُمار ہو جائے
تب گھڑی گھڑی اِیذا یوں دیا نہیں کرتے
کائنات میں جا کر دیدِ پیار سے دیکھو
مرقدِ مُحِبًاں ہیں جو مٹا نہیں کرتے
صرف اک اشارے سے تم جو دل دُکھاتے ہو
اس طرح کسی کو بھی ہم جدا نہیں کرتے
میرے جانے سے عالم اِس طرح کہے لازم
کے نہیں نگاہوں میں ہم رہا نہیں کرتے
عقل کا تقاضا ہے باشعور کو بولے
ہر عَمَل کو ہر حالت بَرمَلا نہیں کرتے
اے رضؔی پریتم ہے اب تری نظر میں جو
جو لگے بری اس کو وہ خطا نہیں کرتے

0
51