| یہ تقاضے بدل بھی جاتے ہیں |
| وقت کے آج کل بھی جاتے ہیں |
| اک دریچہ کھلا جو رہتا ہے |
| لوگ دل سے نکل بھی جاتے ہیں |
| درد رہتا ہے لڑکھڑانے کا |
| پاؤں جن کے سنبھل بھی جاتے ہیں |
| جن پہ موسم نیا نیا ہے کھلا |
| ان کے ارماں مچل بھی جاتے ہیں |
| ان پرانے ہوئے کھلونوں سے |
| بوڑھے بچے بہل بھی جاتے ہیں |
| کتنے صحرا تھے بجھ گئے ہونگے |
| کتنے دریا ہیں جل بھی جاتے ہیں |
| دل کے ماتم کدے میں کیوں شیدؔا |
| ہم جو اہلِ غزل بھی جاتے ہیں |
| *علی شیدؔا* |
معلومات