وہ کوئی اپسرا ہے دیس تھا اس کا گھٹاؤں پر
ہمارے گھر میں وہ آئی ہزاروں التجاؤں پر
زمیں پر رینگنا اس کو کبھی اچھا نہیں لگتا
نگاہیں اس کی رہتی ہیں ہمیشہ کہکشاؤں پر
اسے اس کرگسوں کے ڈار کو اب چھوڑنا ہو گا
اسے اب حکمرانی چاہیے باغی ہواؤں پر
اسے آزاد ہونا ہے کشش سے اس زمیں کی اب
کہ اس کی منزلیں پھیلی ہیں اَن دیکھی دشاؤں پر
ابھی کچھ وقت ہے اس کے پروں میں جان ڈلنی ہے
اسے اڑنا ہے چاروں اور پھیلی ان گھٹاؤں پر
مرے مولا یہ شاہینا تمہاری اب حفاظت میں
بھروسہ ہے ہمیشہ سے ہمیں اپنی دعاؤں پر

0
43