وہ کوئی اپسرا ہے دیس تھا اس کا گھٹاؤں پر |
ہمارے گھر میں وہ آئی ہزاروں التجاؤں پر |
زمیں پر رینگنا اس کو کبھی اچھا نہیں لگتا |
نگاہیں اس کی رہتی ہیں ہمیشہ کہکشاؤں پر |
اسے اس کرگسوں کے ڈار کو اب چھوڑنا ہو گا |
اسے اب حکمرانی چاہیے باغی ہواؤں پر |
اسے آزاد ہونا ہے کشش سے اس زمیں کی اب |
کہ اس کی منزلیں پھیلی ہیں اَن دیکھی دشاؤں پر |
ابھی کچھ وقت ہے اس کے پروں میں جان ڈلنی ہے |
اسے اڑنا ہے چاروں اور پھیلی ان گھٹاؤں پر |
مرے مولا یہ شاہینا تمہاری اب حفاظت میں |
بھروسہ ہے ہمیشہ سے ہمیں اپنی دعاؤں پر |
معلومات