زندگی کے ہونٹوں پر
غم خوشی کے قصے ہیں
اپنے اپنے دامن میں
اپنے اپنے حصے ہیں
سوچ کی زمینوں میں
یہ سوال اگتا ہے
ڈور کو خیالوں کی
کون تھامے رکھتا ہے
کون ہے جو آنکھوں میں
خواب بویا کرتا ہے
انکھ دیکھتی ہے جو
صرف ایک دھوکہ ہے
جانے عقل کو کس نے
ایک حد پہ روکا ہے
ایک کشمکش سی ہے
ایک عجیب چنگل ہے
بے خبر ہیں رستے سے
بے یقین منزل ہے
دل کے ہاتھ میں پہنا
آرزو کا کنگن ہے
خواہشوں کے سکوں میں
حسرتوں کی چھن چھن ہے
زندگی میں جانے کیوں
اتنا کھوکھلا پن ہے
ہے ازل سے یوں جاری
کھیل اس طرح کا ہے
زندگی تماشائی
آدمی تماشہ ہے

0
51