آنکھوں میں اشک ، تیری جدائی نہ لا سکے |
باتوں میں تیری جھوٹ ، صفائی نہ لا سکے |
مدہوش ہو کے ہوش کی باتیں کرے کوئی |
کر دے نشہ جو دور کھٹائی نہ لا سکے |
کرتا ہے رہنمائی ملے روح کو جو نور |
وحشت ہو آنکھ میں تو رسائی نہ لا سکے |
کرتے ہو اب گلہ مری اولاد ہے خراب |
نیکی حرام کی تو کمائی نہ لا سکے |
فرہاد کو بتاؤ کہیں جُوئے شِیر اب |
تیشے سے کوہ کی بھی کھدائی نہ لا سکے |
شیریں سخن کی بیوی سے امید ہی نہ رکھ |
آتے ہوئے جو گھر کو مٹھائی نہ لا سکے |
بکرے کی ماں نے خیر منائی ہے اس لئے |
عیدِ بقر کو گھر میں قصائی نہ لا سکے |
طارق خیال و خواب میں رہنے کی بات ہے |
بیتی جوانی جا کے نہ آئی نہ لا سکے |
معلومات