| کوئی غریب الدیار ٹھہرا،کسی کی قسمت میں دھن لکھا تھا |
| مگر مرا یہ نصیب دیکھو کہ جس میں ایسا وطن لکھا تھا |
| ہے خوب شاہ و گدا کا چکر یہ تیری فرماںروائی یارب ! |
| کسی کے حصے میں تخت آیا،کسی کے حق میں کڑھن لکھا تھا |
| کسی نے زیبِ بہار دیکھا ، کسی نے گلشن کی لالہ زاری |
| مگر مقدر مرا یہی تھا جو خشک کوہ و دمن لکھا تھا |
| ہے عزمِ بابرؔ ، جلالِ اکبرؔ ، جمالِ اورنگزیبؔ ، مولی ! |
| یہ کیسی کیسی عظیم ہستی سے تو نے عہدِ کہن لکھا تھا |
| کہاں گئے ہیں وہ لوگ سارے جو رونقِ بزمِ گلستاں تھے |
| میں آج تنہا ہوں انجمن میں کہ دل میں میرے گھٹن لکھا تھا |
| جو یاد آتا ہے عہدِ رفتہ لبوں سے اک سرد آہ ، نکلتی |
| کہ اپنی شوکت کا وہ زمانہ مثالِ چشمِ زدن لکھا تھا |
| وہ جاتے جاتے کلی کی شوخی،گلوں کی رنگت بھی لے گئے ہیں |
| ہماری قسمت میں آہ شاہی !خزاں رسیدہ چمن لکھا تھا |
| مگر دلِ پُر امید ہوں میں کبھی یہ پھر شاہ وار ہوگا |
| کلی بھی پھر سے کھلے گی بَن میں!چمن میں ہر سو نکھار ہوگا |
معلومات