| نکلے گا دیس جانے کا حل کوئی مرا بھی |
| دیکھیں گے میرے ماں باپ چہرہ کبھی مرا بھی |
| ۔ |
| شاید نہ موجِ دریا ، میرا بگاڑتی کچھ |
| گر ناخدا خدایا ، ہوتا کوئی مرا بھی |
| ۔ |
| کسبِ معاش نے یار ، بے گھر مجھے کیا ہے |
| ماں کی نگاہ رستہ ، ہے تاکتی مرا بھی |
| ۔ |
| بے گھر ہوا ہوں دنیا ، بے سایہ تو نہیں ہوں |
| کیسے ؟ لگے مجھے لو ، ہے اک ولی مرا بھی |
| ۔ |
| مدت سے اپنی جنت دیکھی نہیں مدثر |
| سویا ہوا نصیبا جاگے کبھی مرا بھی |
معلومات