| اٹھ کے تیری محفل سے جاتے تو کہاں جاتے |
| مر نہ جاتے جو ہم اوروں کے آستاں جاتے |
| ہو اگر عطا ہم کو خاک تیرے قدموں کی |
| ہم لگا کے ماتھے پر کوئے دشمناں جاتے |
| تجھ کو یاد کرتے اکثر شبِ قیامت تک |
| ذکر تیرا ہی کرتے ہم جہاں جہاں جاتے |
| جب ہوئے مکیں رخصت گر پڑے مکاں سارے |
| چھوڑ کر کہاں آخر بستی کو مکاں جاتے |
| ڈھونڈ لیتے ہم تجھ کو کہکشاں کے جھرمٹ میں |
| کر کے ثبت تم بھی جو قدموں کے نشاں جاتے |
| یہ تو شکر ہے وعدے سے مکر گئے ورنہ |
| شورِ حشر ہوتا جو سوئے آسماں جاتے |
معلومات