| دسمبر کی سرد راتوں میں |
| تنہائی کے زرد لحافوں میں |
| یاد کی بند شریانوں میں |
| ایک برق سی دوڑی ہے |
| اور |
| ہم نے سوچوں کی روانی |
| “ زیرِ تعمیر “ کا تختہ لگا کر |
| ایک شخص کی طرف موڑی ہے |
| لیکن |
| اس شخص کی طرف کے سارے راستے |
| ایسی جگہ پہمچتے ہیں |
| جہاں زمین کے پیمائشی زاویے اور جُغرافیائی معلومات |
| ابھی تک طے نہیں کی جا سکیں |
| کہ |
| اُس شخص تک جانے والی ہر شاہراہ کا جہاں اختتام ہوتا ہے |
| اُس جگہ کے زمینی “نُقاط” ہی نہیں ملتے |
| اور ابھی تک کوئی مساح، کوئی جُغرافیہ داں |
| اس جگہ کو ماپنے کا کُلیہ نہیں نکال سکا |
| سو |
| ہماری سوچیں اس کی طرف مُڑ کر بھی |
| اُس تک نہیں پہنچتیں |
| بس ایک ہیولہ سا ذہن کے پردے پر |
| جگمگاتا ہے لہراتا ہے |
| ایک آواز کا لہجہ |
| کہیں دُور سے بہت ہی دُور سے |
| میرا پسندیدہ گیت گُنگناتا ہے |
| اور اس گیت سے وابستہ کئی اور یادیں |
| خُوبصورت یادیں |
| سوچ کی سطح پر آ کر اُبلنے لگتی ہیں |
| یادیں کرب میں ڈھلنے لگتی ہیں |
| مُجھے اپنے تکیے پر |
| نمی محسُوس کرتا ہوں |
| اس ایک شخص کی |
| کمی محسوس کرتا ہوں |
| کہ |
| وہ شخص کتنا اپنا تھا |
| وہ شخص کتنا پکا تھا |
| وہ شخص کتنا سچا تھا |
| وہ کہتا تھا شاعر جانی |
| اگر |
| تم مل نہ پائے تو |
| میں جی کر کیا کروں گا |
| اب وہ وہاں جا بیٹھا ہے |
| جہاں تک کے راستے تو ہیں لیکن |
| وہاں کے زمینی” نُقاط” ہی نہیں ملتے |
| فیصل ملک |
معلومات