دیکھا اسے تو ہر کوئی شیدائی ہو گیا |
حسنِ ازل کو دیکھ کے سودائی ہو گیا |
میں خود بھی اپنے آپ کو پایا نہیں سنبھال |
ہر راہگیر میرا تماشائی ہو گیا |
مانا کہ اس کے وصل کی منزل بہت تھی دُور |
اک رابطہ ہی باعثِ رُسوائی ہو گیا |
دھڑکا تھا اس کو دیکھ کے دل زور زور سے |
آہستہ اس کی دیکھ کے انگڑائی ہو گیا |
چاہا جو اس نے ہم یہاں دنیا میں آگئے |
مقصد ہمارا اس کی شناسائی ہو گیا |
ہم اس کے عشق میں جو گرفتار ہو گئے |
ہم سے حساب دیکھو اک اک پائی ہو گیا |
طارق ہمارے وصل کے سامان ہو گئے |
جو گیت گنگنا دیا شہنائی ہو گیا |
معلومات